Advertisement

Responsive Advertisement

Kids moral story چھوٹے چھوٹے دانے

 

Kids urdu story
Kids urdu story


چھوٹے چھوٹے دانے

کسی جنگل میں ایک ننھی چیونٹی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی تھی

ننھی چیونٹی کی ماں جب تک صحت مند تھی اپنے او ننھی چیونٹی کے لئے

مزے دار دانے لاتی ،لیکن جب اس کی ماں بیما ر اور بوڑھی ہوگئی تو دانہ لانے

کی ذمے داری ننھی چیونٹی پر آ پڑی ۔

اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ برسات سے پہلے پہلے بہت سارا دانہ جمع

کرنا ضروری ہے تا کہ سردیوں میں آرام رہے اور خوراک بھی آسانی سے ملتی

رہے ننھی نے پہلے دن بہت محنت کی اور بہت دور سے چند دانے گھر تک لے

جاسکی ۔ پھر اور دانے لانے سے انکار کر دیا ۔

اس کی ماں نے فکر مند لہجے میں کہا

 ننھی! صرف ان چند دانوں سے تو کچھ نہ ہوگا ۔ آخر ہم سردیوں میں

اپنا پیٹ کیسے بھریں گے ۔ اس وقت خوراک بالکل غائب ہوگی ۔‘‘

ننھی نے کہا’’ یہ بہت مشکل کام ہے ۔ میں تو صرف چند دانے لاسکتی

ہوں ۔اس سے زیادہ نہیں ۔‘‘ یہ کہ کر بھی سوگئی ۔

اگلے دن وہ پھر دانوں کی تلاش میں نکل پڑی ۔ اس نے سوچا کہ میں اب بڑے بڑے دانے اپنے گھر میں جمع کروں گی ۔اسے ایک درخت کے

قریب بہت سی چیونٹیاں جاتی نظر آ ئیں ۔ جب وہ درخت کے قریب پہنچی تو

وہاں روٹی کے بے شما رٹکڑے پڑے تھے ۔

اس نے دیکھا کہ جو چیونٹیاں چھوٹی ہیں وہ بڑی تیزی سے چھوٹے

چھوٹے دانے منہ میں اٹھاۓ لے جارہی ہیں ۔ جبکہ بڑے چیونٹے بڑے

بڑے دانے منھ میں دبائے جار ہے تھے ۔اس نے ایک بڑا سا دانہ منہ میں پکڑا

اور چل پڑی لیکن ابھی چند قدم چلی تھی کہ تھک گئی ۔

اس دوران ایک بوڑھی چیونٹی کی نظر ننھی پر پڑی اس نے کہا : '' ننھی

کیا بات ہے؟‘‘ اس نے سارا قصہ سنایا۔ بڑی خالہ ہنس پڑیں ۔ بڑی خالہ تھی

چیونٹی کو ایک درخت کے قریب لے گئے جہاں ٹھنڈی چھاؤں تھی ۔

بڑی خالہ نے چھوٹی چیونٹیوں کی طرف اشارہ کیا ’’ تم بھی ان کی طرح

پھرتی سے کام کرو اور چھوٹے دانے گھر لے جاؤ بڑے دانے تم نہیں لے

جاسکتیں ۔‘‘

اچھا دیکھوننھی ! تم چھوٹے دانے میرے گھر پہنچاؤ اور میں بڑے بڑے

دا نے تمھارے گھر لے کر چلتی ہوں لیکن ایک شرط ہے ۔‘‘

’’خالہ! مجھے ہر شرط منظور ہے ،ننھی خوش ہو کر بولی ۔

’’ تم ہر روز تین گھنٹے کام کر و گی ۔‘‘ خالہ جان نے شرط بتائی تو ننھی نے فورا کہا کہ اسے  یہ شرط منظور ہے ۔

دن گزرتے گئے چیونٹی پابندی سے روزانہ چھوٹے چھوٹے دانے خالہ

جان کے گھر جمع کرتی اور خالہ جان بڑے بڑے دانے ننھی کے گھر لے

جاتے ۔

ننھی کی ماں خالہ جان سے بہت خوش تھیں کہ خوراک جمع کرنے میں

مدد کر رہے ہیں ۔ جب ننھی ذرا آرام کرتی تو خالہ جان فورا اسے اٹھنے

اور پابندی کر نے کی تاکید کرتیں ۔

ننھی ! بس اب دانے جمع کر نا بند کر دو ۔‘‘ ایک دن خالہ جان نے ننھی

سے کہا ۔’’ خالہ جان ! میں کچھ دانے اور جمع کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘ ننھی نے

جواب دیا ۔ اصل میں ننھی چاہتی تھی کہ خالہ جان بڑے بڑے دانے اس کے

گھر جمع کرتی رہیں ۔’’ بس ننھی ! خوراک بہت زیادہ جمع ہوگئی ہے ۔ اتنی کافی

ہے ۔‘‘ خالہ جان نے ننھی کو سمجھایا تو اس نے بات مان لیا ۔ پھر نتھی اور خالہ

جان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔

دن گزرتے رہے ۔ نتھی کے ہاں بہت سی خوراک جمع تھی ۔خوراک کے

بڑے بڑے دانے دیکھ کر بھی خالہ جان کی شکر گز ارتھی ۔ ایک دن جب سردیاں

زوروں پر تھیں ۔ سب جانور اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے ۔ کہ

اچا تک ننھی کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ننھی نے دروازہ کھولا تو خوشی سے اسکی چیخ نکل گئی ۔ مہربان خالہ جان سامنے کھڑے تھے ۔

ننھی نے جلدی سے انھیں اندر بلا لیا اور ان کی خوب خاطر کی ۔ اس کی

ماں بھی خالہ جان کی بہت شکر گز ارتھیں ۔

’’ خالہ جان! آپ کی بہت بہت مہربانی !‘‘ ننھی نے خالہ جان سے کہا ۔

” کیوں سنھی ! کس بات کی مہربانی ؟‘‘ خالہ جان حیرت سے بولیں ۔

’’ خالہ جان ! آپ نے یہ اتنی ساری خوراک جو ہمیں دی ۔‘‘ ننھی نے

خوراک کے بڑے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا ۔

’’اچھا! خالہ جان نے قہقہ لگا کر کہا ’لیکن تم نے وہ خوراک تو دیکھی

ہی نہیں جو میں نے گودام میں جمع کی ہے ، جوتم لائی تھیں ۔‘‘

’’ خالہ جان ! وہ تو چھوٹے چھوٹے دانے تھے ۔ ان کے مقابلے میں ان

بڑے دانوں کا کیا مقام ہے ۔‘‘

’’ خود دیکھو گی تو پتا چلے گا کہ کس کی خوراک زیادہ ہے ۔ وہ جوتم نے جمع

کی تھی یا یہ بڑے بڑے دانے جو میں نے تمھارے گھر میں جمع کئے ہی ۔‘‘ خالہ

جان نے کہا اور اس کی ماں سے اجازت لی کہ وہ بھی کو اپنے گھر لے جار ہے

ہیں تا کہ اسے خوراک دکھا سکیں ۔اس کی ماں نے اجازت دے دی اور خالہ

جان ننھی کو لے کر اپنے گھر روانہ ہوگئیں ۔ 

’’ارے خالہ جان !‘‘ ننھی کے منہ سے حیرت کے مارے چیخ نکل

گئی ۔’’ کیوں ننھی ! دیکھا تم نے کتنی خوراک جمع کی ہے ۔ اب بتاؤ وہ خوراک

زیادہ تھی یا یہ چھوٹے چھوٹے دانے!‘‘ خالہ جان نے مسکراتے ہوئے

پوچھا ۔’’ خالہ جان ! میں ماننے کو تیار نہیں ہوں ۔ میں اتنی ساری خوراک جمع

نہیں کر سکتی ۔ اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا ۔

دیکھو ننھی!‘‘ خالہ جان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا’’ یہ سب خوراک

تم نے جمع کی تھی ۔ یہ اس لئے بہت زیادہ ہے کہ تم نے ایک مہینے میں ہر روز

بہت محنت اور ایمان داری سے کام کیا ۔

تم نے کام کے دوران ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔ تم نے کام بڑی

با قاعدگی سے مسلسل کیا۔ یہ اس کا کمال ہے ۔ یا د رکھو! محنت اور کام کو با قاعدگی

سے کرنے میں ہی کامیابی ہے ۔ اتنی بڑی کامیابی کہ تم حیران ہو جاؤ گی ۔اتنی

حیران جتنی کہ تم اب ہو رہی ہو ۔‘‘

پھر خالہ جان نے ننھی کو اس ڈھیر میں سے کچھ خوراک اور دے دی ۔

وہی تھے اور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل خوراک ننھی نے خالہ سے کہا ۔

جزاك الله خيرا

’’اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرماۓ‘‘



اخلاقی سبق: مستقل مزاجی بڑی چیز ہے






Post a Comment

0 Comments

Navbar Color (color name in small letter)

"--dlr:white"

Icon color (Color name in small letter)

"--nlr:black"