Advertisement

Responsive Advertisement

پنجاب کے ضمنی الیکشن اور ملکی حالات


پنجاب الیکشن
پنجاب الیکشن


 پنجاب کے ضمنی الیکشن اور ملکی حالات

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مزید عدم استحکام سے دو چار کر دیا ہے

۔ تین چار ماہ سے پنجاب کا انتظامی ڈھانچہ ڈانوال ڈول ہے۔ بار بار درخواستیں عدلیہ میں لے جانے کی وجہ سے بھی

عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔ مرکز میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ہی پنجاب

میں بحران در بحران پیدا ہو تار ہے ہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ وزارت اعلی کے شوقین

سیاستدانوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے ،اب جو ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ، اس کے بعد بھی وہی کھنچا تانی، خرید

وفروخت کے الزامات ہیں جبکہ پنجاب تماشاگاہ بنی ہوئی ہے۔ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ

یعنی پندرہ نشستیں جیتیں ہیں اور وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور اس کی

اتحادی جماعتیں بھی حکومت بنانے کے لیے بھر پور کوشش کر رہی ہیں ، اب کون کامیاب ہو تا ہے ،اس کا بھی جلد

پتہ چل جائے گا۔ ویسے اگر مسلم لیگ ن ملک بھر میں فوری انتخاب کاراستہ اختیار کرتی ، عمران خان کو ان کی

کار کر د گی کی بنیاد پر چیلنج کر تی تو پنجاب اور مرکز میں جیت کر حکومت بنانا آسان ہو سکتا تھا۔ لیکن مسلم لیگ ن اور

اتحادی جماعتوں کی قیادت نے اس آپشن کو اختیار نہیں کیا اور حکومت میں رہنے کا آپشن اختیار کر لیا۔ یوں عمران

حکومت کے معاشی مسائل انہیں اٹھانے پڑ گئے جس کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمت بڑھی اور مہنگائی میں اضافہ ہو گیا

۔اس کے بعد عمران خان کاسیاسی مخالفین کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میں آنا اور الزامات کی بھر مار کر نا، اس

کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں دوبارہ اضافہ ہوا۔

اتحادی حکومت عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے بیانیہ کا بھی شکار ہوئی۔ عمران خان نے کمال ہوشیاری سے حالیہ

ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران مرکزی اور صوبائی حکومت، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر انتخابی دھاندلی یا دھاندلا کا

شور مچاکر پہلے ہی سے یہ بیانیہ بنادیا کہ ان کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے ۔ عمران خان کی میڈیا ٹیم اور

سوشل میڈیا ونگ نے دھاندلی اور سازش کے بیانئے کو بڑی ہو شیاری اور تیزی سے پھیلایا ،الیکشن کمیشن پر کھلم

کھلا الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی جبکہ مسٹر ایس اور مسٹر وائی کی اصطلاح سامنے لاکر عوام اور میڈیا میں ایساماحول

بنایا جیسے عمران خان عوام کو سمجھار ہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، اس پراپیگنڈے کو ٹی وی اینکر ز اور

تجزیہ کاروں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ہی پارٹی ٹکٹ دے کر

مسلم لیگ ن کے پہلے سے موجودامید واروں اور ووٹروں کو بددل کر دیا۔ اس لیے شکست میں ایک وجہ یہ بھی بنی

کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر ز نے پارٹی کے اس فیصلہ کو قبول بھی نہیں کیا اور بڑی نیم دلی سے انتخابی مہم میں حصہ لیا

مسلم لیگ ن اس نقطہ کو بھی سمجھنے میں ناکام رہی کہ عمران خان کا بیاشیدان کے خلاف بڑی تیزی سے گردش کر رہا

ہے ، عمران خان کی لابی پوری قوت سے اس بیانئے کو وائرل کر نے میں مصروف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں

متبادل بیانیہ اختیار نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے اقتدار سے نکلنے سے پہلے ہی نیوٹرل ، بیرونی خط اور سازش کا بیانیہ

تیار کر کے اس پر کام شروع کر دیا تھا جبکہ مسلم لیگ ن اور اتحادی اس حوالے سے کاو نٹر نیر بیٹیو تیار نہیں کر سکے۔

عمران خان نے اپنے حامیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی ہے کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہوئی اور اس سازش

میں پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی کر دار بھی شامل تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بھی بڑھی اور

اتحادی حکومت کو سیاسی پسپائی کی طرف بھی جانا پڑا۔ اسی بنیاد پر ہمیں ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھنا ہو گا۔

عام طور پر ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ کم ہو تا ہے ۔ لیکن ان ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ زیادہ رہا اور زیادہ

ووٹروں کا باہر نکلنا بھی تحریک انصاف کی جیت کا سبب بنا۔ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی عمران خان کے بیانیہ اور سخت گیر

موقف کی وجہ سے دباو میں رہی۔اس نے اس سارے عمل میں خود کو دور کھا، پھر جو مہنگائی میں اضافہ ہوا اور جس

انداز سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اس پر بھی لوگوں میں یقینی طور پر کافی غصہ تھا۔ لوگوں کو لگا کے عمران خان کی

حکومت کی تبدیلی کے بعد جو حالات معاشی طور پر سامنے آۓ ہیں وہ پہلے سے بھی برے ہیں اور اس کی ذمہ دار

موجودہ حکومت ہے۔

مریم نواز نے عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور فرح گوگی کو بنیاد بناکر جو انتخابی مہم چلائی گئی ، اس کے اثرات کہیں

نظر نہیں آۓ۔ مسلم لیگ ن کا حامی دانشور طبقہ بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ بات نہیں سمجھا سکا کہ حالات ان

کے لیے سازگار نہیں یا تو وہ خود نہیں سمجھ سکا یا اپنے مفادات کو بنیاد بنا کر انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو بھی

اندھیرے میں رکھا۔

مسلم لیگ ن جو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے مقابلے میں کمزور ہے ۔ مسلم لیگ ن اور دیگر عمران خان

مخالف جماعتیں ابھی تک سوشل میڈیا کی طاقت اور عمران خان کی اس پر سیاسی گرفت کو بھی سمجھ نہیں سکے ۔

سوشل میڈ یا پر جاری اداروں اور مسلم لیگ ن اور زرداری مخالف مہم نے بھی عوامی سطح پر رائے عامہ کو متاثر کیا۔

پنجاب جسے مسلم لیگ ن کی سیاست کابڑا گڑھ سمجھا جاتا ہے ، وہاں عمران خان کی پرا پیگنڈا مہم نے جو جگہ بنائی ہے

، مسلم لیگ ن اسے کیسے ہنڈل کر تی ہے ، یہ دیکھنے کی چیز ہے۔ انتخابی مہم چلانے کے پرانے طریقے کامیاب نہیں

رہے ، حالات اب یہاں ماضی کے جیسے نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن نئے حالات سے کیسے نبٹتی ہے یہ خود ایک بڑا چیلنج ہے

Post a Comment

0 Comments

Navbar Color (color name in small letter)

"--dlr:white"

Icon color (Color name in small letter)

"--nlr:black"