Advertisement

Responsive Advertisement

جدید دور کی تباہ کاریاں اور مسلمان عورتوں کےلیے لمحہِ فکریہ | کہاں کھو گے ہم، کیا تھے کیا ہو گے ہم

Message to muslim women
Message to muslim women


 !

کہاں کھو گے ہم ، کیا تھے کیا ہو گے ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب اخلاقیات اور کردار کے بحران سے گزر رہے ہیں اور یہی سیاست معیشت اور سماجی بحرانوں کا سبب بنتا ہے

اور یوں سماج افرا تفری نفسا نفسی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے

نگہت فرمان

اے ماؤ! بہنو! بیٹیو!دنیا کی عزت تم سے ہے۔

ملکوں کی بستی ہو تمہی ، قوموں کی عزت تم سے ہے۔

الطاف حسین حالی تھے وہ! جی! وہی شاہ نامہ اسلام والے حالی۔

جنہوں نے کتنی چاہ سے خواتین کو خراج تحسین پیش کیا ہے ، واہ کیا بات ہے ان کی۔ اور ابیاہی چلن تھا اس وقت،

مائیں ، ہیں اور بیٹیاں ایسی ہی تھیں جبیہا انہوں نے فرمایا تھا۔ صبر ، تحمل، بجز ، بر داشت، دور اندیشی ،وفا شعاری ،

ایثار ، اخلاص ، و قار اور قربانی کے جوہر سے آراسترم جسم انکسارو با عصمت و پروقار اور کیوں نہ ہوتی کہ اسے

رب تعالی نے ان اوصاف سے نوازا اور انہیں تخلیق انسان کے عظیم منصب پر سرفراز کرتے ہوۓ اسے معلم اور

اس کی گود کو پہلی درس گاہ قرار دیا۔

جی وہ پہلی درس گاہ ہے انسانیت کی ۔ اور درس گاہ کہتے کسے ہیں .....؟

شعور انسانیت کو اتنا بلند کر دینے کی جگہ جہاں لوگ خود آگاہی کے ساتھ خدا آگاہ ہو کر مکر ٹیم انسانیت کے منصب

جلیلہ پر فائز ہوتے ہیں۔ بی !اسے کہتے ہیں درس گاہ!

پھر اچانک ہی عجب ہوا چلی ،ایسی چلی کہ آندھی میں بدل گئی اور اتنی گرداڑی کہ الامان والحفیظ ، چہرے گرد آلود

ہوۓ ایسے کہ خود کو پہچا نتا بھی مشکل ہو گیا۔

درست راستے گم ہوئے اور ہم نہ جانے کہاں سے کہاں آگئے ،اجنبی تہذیب نے ہمیں گھیر لیا اور افسوس! کہاں

کھو گئے ہم ، کیا تھے کیا ہو گے ہم ........

ان اجنبی اور بدلتے اقتدار نے خواتین کا کردار معاشرتی واخلاقی زوال اور جدید تمدن سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اب

ہم سب اخلاقیات اور کردار کے بحران سے گزرر ہے ہیں اور یہی سیاست معیشت اور سماجی بحرانوں کا سبب بنتا ہے

اور یوں سماج افرا تفری نفسا نفسی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا اور ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت دی، لیکن جب انسان نے صراط مستقیم

کو چھوڑ دیا تو پھر سب ہی حیوان میں بدل گئے ۔ صراط مستقیم انسان کو ایک ایسی توانائی فراہم کر تا ہے جس سے انسان

میں طوفانوں کارخ موڑ دینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

ان جدید اقدار کے خلاف اب تو مغرب میں بھی احتجاج ہو رہا ہے لیکن کہاں کھو گئے ہم ، کیا تھے کیا ہو گئے ہم


دور جدید کا مشہور دانش ور فرانسس فوکویاما انسان کی اخلاقی ترقی کو ہی معیار قرار دیتا ہے ، جسے وہ سابی سرمایہ

Social Capital کہتا اور اسے فرد اور خاندان کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔اب تو مغرب کاانسان

بھی خاندانی نظام کے انتشار سے تنگ آچکا ہے اور چاہتا ہے کہ مضبوط خاندان کی بنیادیں دوبارہ بحال ہوں ، لیکن جو

طرز زندگی ، جو اخلاقی تصورات اور جو ساجی روایات اب وہاں عام ہو چکی ہیں ،ان کے پیش نظر اب اس کا امکان

باقی نہیں رہا۔ دور جدید کی یہ نئی اقدار جس کے ہم اسیر ہو گئے ہیں یہ صرف مغربی معاشرے تک محدود نہیں ہے ۔

گزشتہ دس برسوں میں جاپان میں طلاق کی شرح میں 66 فی صد اضافہ ہوا ہے اور وہاں تہاماں کا تناسب 85

فی صد ہے۔ چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے ۔ چلی میں 70 فی صد اور میکسیکو میں 68 فی صد

بچے شادی کے بغیر پیدا ہوۓ ہیں ۔ یہی صورت حال استوا نیا اور بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔وطن عزیز میں بھی

طلاق کی شرح سال بہ سال تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔اس طرح مشرقی معاشرہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

جدید سرمایہ داری نظام اپنے تجارتی مقاصد کے لیے عورت کے بد ترین استحصال کو جائز قرار دیتا ہے۔اور یہی وجہ

ہے کہ اب ہمارے سماج میں عورت کار وایتی کر دار پامال ہو رہا ہے اور دور جدید کا آسان شکار بنتی جار ہی ہے۔

اسلامی اقدار کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت

کے نسوانی کردار کا تحفظ کر تا ہے تو اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس معاشرہ کی قدیم روایتیں اس کا تقاضا

کرتی ہیں بل کہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالی کے احکام ہیں جن

میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے ۔ یہ پختہ ایمان ہی اس طوفان بلاخیز کامقابلہ کر سکتا ہے جو جدید مغرب کی

دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کی اخلاقیات اور اقدار کو تباہ و برباد کر چکا ہے۔

اس سے کوئی کیسے انکار کر سکتا ہے کہ اب خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ ،اسلامی اقدار ہی ہیں

۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی اقدار دنیا بھر میں میں زبر دست کشش کا باعث ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں

کے لیے اسلام خوف کا ایک سبب ہے جسے ’’اسلامو فوبیا‘‘ کہا جا تا ہے ۔ مشہور نو مسلم دانش ور مراد ولفریڈ ہانمین

نے اپنی فکر انگیز کتاب MilleniumThirdtheinIslam:RisingtheonReligion میں بہت

تفصیل سے واضح کیا ہے کہ خاندانی نظام اور خاندانی قدر میں اسلام کی بہت بڑی طاقت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی

دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی۔

آزادی نسواں کی ممتاز علم بردار ” تھیر یا کور بن‘‘ نے جب اسلام قبول کر لیا اور باحجاب رہنے لگیں تو ان سے

پوچھا گیا کیا تباب استحصال اور ظلم کی علامت نہیں ہے...؟

انہوں نے کہا: ’ہاں! میں اسکارف پہنتی ہوں ۔ میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باند ھتا۔ یہ کیسے میرے

استحصال کا ذریعہ ہو سکتا ہے؟ میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلے میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے

اس کے اظہار کی راہ میں آڑے آتا ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ پہلے میں بھی کچھ ایساہی سمجھتی تھی۔ میرا اسکارف

البتہ مردوں کی ان ہوس ناک نظروں کی راہ میں آڑے آتا ہے جو عورت کے استحصال کی پہلی کڑی ہے۔ یہ مجھے

تحفظ اور احترام و عزت عطا کر تا ہے۔“

انہوں نے آخر میں کہا: ” اسلام فیمی نسٹ تصورات سے یقینا ہم آہنگ نہیں ہے لیکن فیم نسٹ آئیڈ یلز کی تکمیل

کہیں ہو سکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔

کہاں کھو گئے ہم ، کیا تھے کیا ہو گئے ہم .........

کیا اب بھی ہم دور جدید کے اخلاقی طو فان کاتر نوالہ بنیں گے .....؟

.... کیا ہم اب بھی اپنی اسلامی اقدار کو چھوڑ کر تہذیب بر ہنہ کے اسیر بنیں گے؟

اور کیا ہم اس کی قیمت اپنی عصمت و خاندان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ....؟

 یقیناً نہیں، تو پھر دیر کیسی پلٹ آئے اپنی اسلامی اقدار کی جانب اور سمیٹ لیجیے دنیاجہاں کی برکات و ثمرات۔

مسلمان عورتوں کےلیے پیغام

اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے۔

ملکوں کی بستی ہو تمہی ، قوموں کی عزت تم سے ہے۔

نیکی کی تم تصویر ہو ، عفت کی تم تد بیر ہو۔

ہو دین کی تم پاسہاں ایماں سلامت تم سے ہے۔

فطرت تمہاری ہے حیا، طینت میں ہے مہرووفا۔

گھٹی میں ہے عبر ورضا ، انساں عبارت تم سے ہے ۔

Post a Comment

0 Comments

Navbar Color (color name in small letter)

"--dlr:white"

Icon color (Color name in small letter)

"--nlr:black"