غزل"
سیّد عبدالحمید عدم
خُوش ہُوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا
مُجھ کو سپُردِ گردشِ ایّام کر دیا
ساقی سیاہ خانہء ہستی میں دیکھنا
روشن چراغ کِس نے سرِ شام کر دیا
پہلے مِرے خلُوص کو دیتے رہے فریب
آخر مِرے خلُوص کو بدنام کر دیا
کِس بے تکلّفی سے فسانہ نگار نے
آغاز کو بگاڑ کے انجام کر دیا
کِتنی دُعائیں دُوں تِری زُلفِ دراز کو
کِتنا وسیع سلسلہء دام کر دیا
وہ چشمِ مَست کِتنی خبردار تھی عدمؔ
خود ہوش میں رہی، ہمیں بدنام کر دیا
سینے میں راز عشق چھپایا نہ جائے گا
یہ آگ وہ ہے جس کو دبایا نہ جائے گا
سن لیجیے کہ ہے ابھی آغاز عاشقی
پھر ہم سے اپنا حال سنایا نہ جائے گا
اب صلح و آشتی کے زمانے گزر گئے
اب دوستی کا ہاتھ بڑھایا نہ جائے گا
ہم آہ تک بھی لا نہ سکیں گے زبان پر
وہ روٹھ جائیں گے تو منایا نہ جائے گا
وہ دور ہیں تو دل کو ہے اک اضطراب سا
وہ آئیں گے تو آپ میں آیا نہ جائے گا
پھر حریف بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
You may also like:👇👇👇
بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے
زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتا ہے
لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مری آنکھوں تک
رت جگے کاشت نہ کر لے تو وہ کب سوتا ہے
جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک
میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے
نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا
آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے
تیرے بخشے ہوئے اک غم کا کرشمہ ہے کہ اب
جو بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے
سو گئے شہر محبت کے سبھی داغ و چراغ
ایک سایہ پس دیوار ابھی روتا ہے
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
Best urdu ghazals about love |
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق
آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے
توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے
مست کر کے مجھے اوروں کو لگا منہ ساقی
یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے
ساتھ ہر ایک کو اس راہ میں چلنا ہوگا
عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے
ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن
ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
پھول کھلتے ہی کھل گئیں آنکھیں
کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا
تو نہ رسوا ہو اس لیے ہم نے
اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا
جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا
تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا
کوئی دیکھے یہ سادگی اپنی
پھول یادوں کا اک سجا رکھا
سعدؔ الجھا رہا مگر اس نے
تجھ سے ملنے کا راستہ رکھا
0 Comments